menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

افضال ریحان

11 1
18.07.2025

پی ٹی آئی ان دنوں ایک مرتبہ پھر دو برسوں سے اڈیالہ جیل میں بند،اپنے بانی رہنما سابق کھلاڑی، کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کا عندیہ ظاہرکررہی ہے لیکن احتجاجی تحریک ہی کے حوالے سے اس وقت پی ٹی آئی میں واضح طور پر دو دھڑے یا گروپ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں جنکی پشت پناہی پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت اور بڑی حد تک صعوبتیں جھیلنےوالے کارکنان کررہے ہیں انہی کے بقول دوسری طرف چُوری کھانےوالے یا اقتدار کے مزے لوٹنے والے لیڈران ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں انہیں اس حوالے سے کوئی خاص پریشانی نہیں،بانی کی رہائی کیلئے ان میں وہ بے چینی و بے تابی نہیں جو عام پارٹی ورکرز میں پائی جاتی ہے اور وہ کسی بھی صورت اپنے بانی کو جیل سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس لیے انکے غم و غصے کا ٹارگٹ بالعموم کے پی کے چیف منسٹر علی امین گنڈاپور بن جاتے ہیں۔‎سچائی سے ملاحظہ کیا جائے تو ان بدترین حالات میں علی امین گنڈا پور نے خود کو ایک منجھا ہوا پریکٹیکل سیاستدان ثابت کیا ہے حالات کے جس تنے ہوئے رسے پر وہ چل رہے ہیں انکی حکومتی صلاحیت کو ثابت کرنے کیلئے یہی کچھ کم نہیں، ایک طرف وہ اپنے خود پسند وشکی مزاج لیڈر اور اسکی بہنوں کا اعتماد لیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی وہ اچھا خاصا رام کیے ہوئے ہیں اور نہیں تو حیلوں بہانوں سے مواقع پیدا کرتے ہوئے وہ اسٹیبلشمنٹ تک اپنے لیڈر کی رہائی کا مطالبہ پہنچاتے ہیں، اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں بدگمانی اور ناتوانی کے بیچوں بیچ وہ رستہ بنانے کیلئے کوشاں ضرور ہیں ‎مہربانوں نے کھلاڑی کو سبق سکھانے کیلئے شاید ہی کوئی کسر باقی رہنے دی ہے،سپیشل سیٹوں کا آخری کیل بھی........

© Daily Jang