عطا ء الحق قاسمی
(گزشتہ سے پیوستہ)
میرا خیال تھا کہ میری اس آخری پیشکش پر شیخ ادریس اگر خوشی سے اچھل نہ پڑا تو کم از کم مثبت ردعمل کامظاہرہ ضرور کرےگا مگر بالکل خلاف توقع اس بار اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا ’’تمہاری بکواس ختم ہوگئی ہے یا ابھی مزید کچھ رہتی ہے؟‘‘۔مجھے اس کی اس بات پر شدید ذہنی دھچکا محسوس ہوا چنانچہ میں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’میں یہ سب کچھ تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا تھا کیونکہ تمہاری مفلسانہ زندگی پر مجھے ترس آتا ہے مگر افسوس تم نے میرے خلوص کی قدر نہیں کی۔‘‘یہ سن کر شیخ ادریس نے مسکراتے ہوئے میرے کاندھے تھپتھپائے اور بولا ’’بات یہ ہے کہ مجھے مرنے سے کوئی دلچسپی نہیں، زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور میں اس نعمت کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے جل کر جواب دیا ’’زندگی یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے لیکن اس زندگی میں تمہیں اگر کوئی خوشی ملی ہو تو وہ بتائو۔‘‘یہ سن کر وہ بدبخت ایک بار پھر ہنسا اور بولا ’’کوئی ایک خوشی ہو تو بتائوں، میری زبان تو اس امر پر خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی کہ میری دونوں ٹانگیں کام کرتی ہیں، میں اپنے دونوں بازو پوری قوت سے ہلا بلکہ گھما سکتا ہوں، میری آنکھیں خوبصورت مناظر دیکھ سکتی ہیں، میں اپنے سارے کام خود کرسکتا ہوں،میری بیوی بہت اچھی ہے، اللہ نے مجھے اولاد بھی دی ہے اور وہ بہت فرما نبردار اور نیک ہے، لوگ میری عزت کرتے ہیں، میں اور میرے بچے کبھی بھوکے نہیں سوئے، ہم صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، باقی دکھ اور محرومیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی........
© Daily Jang
