کشور ناہید
ہم دو ملکوں نے ایٹم بم کیا بنائے۔ روز ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے پچاس سال گزار لیے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے اسلئے کہا تھا ’’جلادو یہ دنیا‘‘۔
عنوان بالا والے شاعر ہیں علی سردار جعفری جنہوں نے اس طرح کے جنگی ماحول اور ناآسودگی کو تسلسل سے دیکھتے ہوئے لکھا تھا اور ہم لوگوں کے سامنے پڑھا تھا۔
(’’تم آئو گلشن لاہور سے چمن بردوش... ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لیکر ہمالیہ کی ہوائوں کی تازگی لیکر.... پھر اسکے بعد یہ پوچھیں گے کون دشمن ہے)۔ اور اسکے بعد جواب میں احمد فراز نے لکھا تھا ’’چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے‘‘۔
مگر اب تو مودی صاحب نے وہ ماحول بھی نہیں رہنے دیا جس میں ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے ایسے شعر لکھتے اور پڑھتے تھے۔ اب تک ساری دنیا میں جہاں جہاں جنگ ہوئی، بے مقصد اور وحشت اوڑھ کر سپاہیوں کو مرواتے رہے۔ جیسے وہ تو انسان نہیں۔ ہر زمانے میں جنگوں کے خلاف بولنے والے فلسفی، شاعر اور دانشور ہوتے تھے اور آج بھی فلسطین کے خلاف نیتن یاہو مسلسل جنگ پر آمادہ اور بچے کچھے کونوں کھدروں میں چھپے فلسطینی بچوں تک غذا کے ٹرک تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ یوکرین والا خود کو پروموٹ کرنے کے لئے روز امریکی ہتھیار مانگتا اور آبادیوں کو بے کفن قبرستان میں بدل کر، انٹرویو دیتا پھر رہا ہے۔ اب تو اس کے ہاتھ آسمان تک پہنچ گئے ہیں۔ اور انڈیا میں مودی نے نیلم ویلی کے غریب مگر بہادر لوگوں کی جانب بے ضرورت بمباری شروع کی ہوئی ہے۔ کرن، ٹٹوال، کندن اور رتی گلی کے نوجوانوں کو میں نے فون کرکے حال پوچھا تھاتو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے ’میڈم! ہم سب باہمت اورتیار ہیں۔ کوئی قدم تو بڑھائے۔ ہماری عورتیں، آپ نے دیکھی تھیں کیسے اکیلی سر پر سامان اٹھائے نیلم ویلی کے دشوار رستوں پر دن رات چلتی ہوئی، بکریوں کو بھی........
© Daily Jang
