ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ 23سرکاری اداروں (SEOs) نے گزشتہ 10 سال کے دوران قومی خزانے کو 5500ارب روپے (19.5 ارب ڈالر) کا نقصان پہنچایا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں 2023-24 میں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کا صرف ایک سال کا خسارہ 851 ارب روپے بتایا تھا جو گزشتہ 10 سال میں مجموعی 5500ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ بڑے خسارے میں چلنے والے اداروں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) 295.5 ارب روپے، کوئٹہ الیکٹرک سٹی 120.4ارب روپے، پشاور الیکٹرک سٹی 88.7 ارب روپے، پی آئی اے 73.5ارب روپے، پاکستان ریلوے 51.3ارب روپے، سیالکوٹ الیکٹرک سٹی 37ارب روپے، لاہور الیکٹرک سٹی 34.5ارب روپے اور اسٹیل ملز کے 31.1 ارب روپے کے خسارے شامل ہیں جن میں صرف توانائی کے شعبے میں نقصانات 318 ارب روپے سالانہ ہیں۔ پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کی تین تقسیم کار کمپنیوں سکھر، حیدرآباد اور پشاور الیکٹرک سپلائی کی نجکاری کیلئے ورلڈ بینک سے مشاورت جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق ستمبر 2025تک ان پاور سپلائی کمپنیوں کے فنانشل ایڈوائزرز مقرر کردیئے جائیں گے تاکہ ان کی نجکاری کا عمل شروع کیا جاسکے۔
وزارت خزانہ کے مطابق اس وقت مختلف حکومتی سیکٹرز کے 212سرکاری اداروں میں سے 197 ادارے خسارے میں چل رہے ہیں جن سے تقریباً 450000 افراد منسلک ہیں۔ ان اداروں کو چلانے کیلئے حکومت مسلسل سبسڈیز اور بینکوں کے قرضوں کیلئے گارنٹیاں فراہم کررہی ہے لیکن سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے اضافی ملازمین، بجلی کی چوری، بلوں کی عدم وصولی، بیڈ گورننس اور کرپشن کی وجہ سے یہ ادارے خسارے میں ہیں اور قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ 5500 یوٹیلیٹی اسٹورز میں سے صرف 1500اسٹورز آپریشنل رکھے جائیں گے۔ وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو 38 ارب........
© Daily Jang
