سہیل وڑائچ
تحریک انصاف کی سرگرم سیاست کا اہم ترین پہلو سڑکوں کو گرم رکھنا رہا ہے۔ دراصل ووٹ پاور اور سٹریٹ پاور دو مختلف چیزیں ہیں۔ 70ء کی دہائی تک جماعت اسلامی مقبول جماعت نہ ہونے کے باوجود بھرپور سٹریٹ پاور رکھتی تھی، آج بھی جمعیت علمائے اسلام اور تحریک لبیک پاکستان قومی انتخابات میں بڑی ووٹ پاور کی حامل جماعتیں نہیں ہیں مگر ان کی سٹریٹ پاور سے ہر کوئی خوفزدہ رہتا ہے مثلاً مارچ 2025ء میں تحریک لبیک نےصوبے بھر میں125مختلف مقامات پر ریلیاں، احتجاج اور مظاہرے کئے جن کیلئے پولیس طلب کی گئی اور امن و امان کی خرابی کو خطرہ پیدا ہوا۔ تحریک انصاف کی ووٹ پاور کے بارے میں کسی کو شک نہیں وہ بلاشبہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے زیادہ ہے لیکن ووٹ پاور کا استعمال صرف اور صرف الیکشن میں ہوتا ہے اور موجودہ سسٹم کےٹوٹنے تک الیکشن کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ پنجاب حکومت فی الحال بلدیاتی انتخابات کرانے کا خطرناک رسک لینے کو بھی تیار نہیں۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کی ووٹ پاور موجود ہونے کے باوجود غیر متعلقہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس ووٹ پاور کے اندر سے کتنے ووٹ ایسے ہیں جو سٹریٹ پاور کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟۔ ووٹرز کا کام آسان ہوتا ہے ووٹ ڈالا اور گھر بیٹھ گئے، گھر کے ڈرائنگ روم یا گلی کے نکڑ پر اپنی پسندیدہ جماعت کی حمایت کر دی اور بس۔ مگر سٹریٹ پاور میں حصہ لینے والے ووٹر سے کہیں دلیر اور قربانیاں دینے والے ہوتے ہیں۔ نومبر 2024ء کے اسلام آباد دھرنے کے بعد سے تحریک انصاف سٹریٹ پاور سے محروم ہو چکی ہے، اب اس سے سڑکیں گرم نہیں رکھی جا رہیں گویا انصافی ووٹ پاور ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ ووٹرز سیاسی طور پر اب بھی انکے ساتھ ہیں لیکن سڑکیں گرم کرکے اپنی کمر پر تازیانے کھانے کیلئے تیار نہیں۔
تحریک انصاف فی الحال حکومت کیلئے کوئی بڑا چیلنج پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ چیزیں نارمل ہو چکی ہیں ،ملک یقیناً ایک ابنارمل صورتحال کا شکار ہے یہ عدم استحکام اس وقت تک رہے گا جب تک........
© Daily Jang
