menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

مظہر عباس

22 6
13.02.2025

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقہِ زنجیر میں زباں میں نے

یہ 10 ؍مئی 1978ء کا حکم نامہ ہے جو اُس وقت کے ہوم سیکرٹری جناب کنور ادریس نے بحکم گورنر سندھ، جناب منہاج برنا جو اُس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے کی ’’زباں بندی‘‘ کا جاری کیا۔ ’’ہر گاہ کہ حکومت سندھ اس رائے کی حامل ہے کہ منہاج برنا کو ایسے انداز میں عمل کرنے سے روکا جائے جو تحفظِ امن ِعامہ کیلئے ضروری ہے اور اُن کے رویے کو پابند کیا جائے لہٰذا امنِ عامہ آرڈیننس مجریہ 1960$ کی دفعہ 5ذیلی دفعہ (ڈی) کے تحت اُن کو ہدایت دیتے ہوئے حکومت خوش ہے کہ ایک ماہ کیلئے وہ اپنے خیالات یا کوئی اخباری بیان جاری نہیں کر سکتے یا انٹرویو نہیں دے سکتے جس کا تعلق حکومت اور اخبارات کے تعلقات یا اخباری قوانین کے بارے میں ہو‘‘۔

برنا صاحب کا جنوری 2012ء میں انتقال ہوا مگر اُن کی ’’ہسٹری شیٹ‘‘ پولیس اور انٹلیجنس فائلوں میں 2016ء میں ایک سرکلر کے ذریعہ یہ کہہ کر بند کی گئی کہ وہ اب انتقال کرگئے ہیں۔ اس فائل کا ٹائٹل تھا ’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘۔ برنا صاحب کے بھائی جناب معراج محمد خان مرحوم سے باقاعدہ 2014ء میں ایک خط کے ذریعے ایک ایجنسی نے برنا صاحب کا ’’ایڈریس مانگا‘‘ تو خان صاحب نے مجھے ٹیلیفون کیا میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اُن سے کہا ’’خان صاحب اُس افسر کو برنا صاحب کی قبر کا پتہ بتا دیں‘‘۔ جب خان صاحب نے افسر سے کہا کہ اُن کے بھائی کا تو 2012ء میں انتقال ہو چکا ہے تو حیران کن طور پر اُس نے پھر بھی ایڈریس مانگا یہ کہہ کر کہ فائل بند کرنی ہے۔‘‘

پاکستان میں سوچ، تحریر اور تقریر پر پابندیوں کی تاریخ پُرانی اور آج کے دور میں ’’تصویر‘‘ دکھانے پر بھی چاہے وہ ٹی وی پر یا اخبار میں ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے شہر بدر کیا جاتا تھا، ملک بدر صوبہ بدری اور اب یہ حکم ہے کہ فلاں افراد کی تقریر دکھانے اور تصویر دکھانے پر بھی پابندی ہے۔ بدقسمتی صرف یہ ہے کہ کل تک جن کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پابندی تھی آج اُنہی کی پارٹی کی حکومت میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ بات صرف یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی اب بھی اس ڈیجیٹل دور میں حکمرانی سوچ ’’کتاب‘‘ سےخوف زدہ نظر آتی ہے ہمارے ساتھی صحافی دوست حامد میر یا سہیل وڑائچ........

© Daily Jang