عطا ء الحق قاسمی
(گزشتہ سے پیوستہ)
وزیر آباد میں میں نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی ،ہمارا سکول غلہ منڈی کے پاس تھا، اس میں ایک صحن تھا اور چار پانچ کمرے تھے کلاس رومز میں صرف ایک کرسی ہوتی تھی جس پر ماسٹر جی بیٹھتے تھے ہم بچے زمین پر چوکڑی مار کربیٹھتے ۔اس دور میں قلم سے زیادہ لکڑی کی ایک اسٹک سے قلم بنایا جاتا تھا جس کی نب چوڑی اور نوکدار ہوتی یہ قلم ہم خود گھڑتے ہم اپنا سبق لکڑی کی بنی ہوئی تختی پر لکھتے تھے، اس پر روزانہ گاچی پھیری جاتی اور پھر اس کے سوکھنے کا انتظار کیا جاتا یہ تختی کثیرالاستعمال تھی ،آدھی چھٹی کے وقت ہم اس سے گتکے کا کام لیتے اور کبھی کبھار ایک آدھ کو زخمی بھی کر ڈالتے۔ اسکول کے گیٹ کے ساتھ بلا چھولوں والا تھا ،بریک میں ہم اس سے پیسے دو پیسے کے چھولے خریدتے اور لذت کام ودہن کا اہتمام کرتے ۔ چند برس پہلے تک بلا زندہ تھا یہ مجھے تب پتہ چلا جب میں اپنی وزیر آباد ’’یاترا‘‘ کے دوران اپنا اسکول دیکھنے گیا تو وہاں صحن میں ایک ماسٹر صاحب کو دھوپ تاپتے دیکھا۔ ماسٹر جی کو بتایا کہ یہاں بلا چھولوں والا بھی ہوتا تھا ماسٹر جی نے کہا ہوتا تھا نہیں وہ اب بھی ہے آپ اس سے ملنا پسند کریں گے، میں نے کہا میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی تھی۔ ماسٹر جی نے ایک لڑکے کو اسے بلانے کیلئے بھیجا وہ آیا تو میں اسے پہچان نہ سکا گورا چٹا تو وہ پہلے سے تھا اب داڑھی بھی سفید ہو چکی تھی۔ ماسٹر جی نے بلے سے پوچھا تم انہیں جانتے ہو، بلے نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’اوئے یہ تو قاسمی صاحب کا پتر ہے‘‘میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ........
© Daily Jang
visit website