مظہر عباس
بانی پی پی پی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مارشل لا لگنے کے کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے تو جنرل ضیاء الحق کو اندازہ ہو گیا کہ اُس کو رہا کرنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے پارٹی کے اندر اُس کے قریب ترین لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسکی پھانسی تک پی پی پی کی سینٹرل کمیٹی نے احتجاج کی کوئی کال نہ دی البتہ کچھ رہنما این آر او یا ڈیل کی کوشش کرتے رہے۔ دوسری طرف جذباتی کارکن اور مقامی رہنما اپنے تئیں خود سوزی کرتے رہے، کوڑے کھاتے رہے یہاں تک کے پھانسی بھی چڑھ گئے ۔ اب 45سال سے یہ رہنما نعرہ لگاتے ہیں، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، جب وہ زندہ تھا تو پھانسی کا انتظار ہو رہا تھا۔ اسی لیے اپنی آخری ملاقات میں بھٹونے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو خبردار کر دیا تھا کہ کن لوگوں پر اعتبار کیا جا سکتا اور کن سے دور رہنا ہے۔ اس سب میں ایک سبق ہے۔
بھٹو سیاست کے طالب علم تھے اور بہت کم عمری ہی میں غالباً 32سال کی عمر میں اقتدار کی ذمہ داریوں تک پہنچ گئے تھے اور شاید اُنہیں اندازہ تھا کہ اس ملک کی سیاست میں انٹری کیلئے کس ’’گیٹ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اُنکی بیٹی بے نظیر بھٹو کی سیاست کا آغاز مارشل لا مخالفت سے ہوا اور انہوں نےباپ کو پھانسی چڑھتے دیکھا، طویل جلا وطنی دیکھی، واپس آئیں تو تاریخ کا سب سے بڑا استقبال ہوا، الیکشن میں کامیابی ملی مگر اقتدار مشروط کر دیا گیا چند شرائط سے جن میں افغان پالیسی کا تسلسل جاری رکھنا اور چند وزارتیں پارٹی سے باہر کی مرضی سے۔ اس سب کے باوجود وہ آخر میں شہید کر دی گئیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی انٹری سیاست میں بھٹو کی سیاست کے خاتمہ کیلئے کی گئی تھی خاص طور پر پنجاب میں جس میں وہ طرز سیاست بھی اپنایا گیا جس کے بغیر شاید ایک غیر سیاسی بزنس سے تعلق رکھنے والے میاں صاحب کو مقبولیت نہیں مل سکتی تھی یعنی ایک لسانی نعرہ ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ‘‘ پھر ہم نے میاں صاحب کا عروج بھی دیکھا اور دوتہائی اکثریت کے باوجود اقتدار سے بے دخلی بھی اور پھر عمرقید اور اس سزا میں اضافے کی اپیل بھی دائر ہوئی۔ اس دوران اُن کے رہنمائوں کا طرز عمل بھی کم و بیش وہی رہا جو بھٹو کی پھانسی کے وقت پی پی پی کے رہنمائوں کا........
© Daily Jang
visit website