عطا ء الحق قاسمی
(گزشتہ سے پیوستہ)
وزیر آباد کے جس محلے میں ہمارا مکان تھا، اس کے بالکل برابر والے مکان میں کرنال سے آئے ہوئے لٹے پٹے مہاجروں کا ایک کنبہ آباد تھا۔ کنبے کے سربراہ کا نام صابو تھا۔ اس کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے اور کسی لڑائی میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ دوسری آنکھ بھی ضائع ہو اس کیلئے وہ اپنے کنبے کے ہر فرد سے الجھنے کی کوشش کرتا۔ ہمارے مکان کی چھت پر سے ان کے صحن میں نظر پڑتی تھی، وہ اکثر کونڈی ڈنڈے سے پسی ہوئی سرخ مرچوں کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے ہنستے ہنستے لڑنا شروع ہوجاتے اور پھر اسی کونڈی پر سے پتھر کا بنا ہوا ڈنڈا اٹھا کر’’حریف‘‘ پر حملہ آور ہوجاتے۔ اس خوفناک جنگ کے دوران یہ لہولہان ہوجاتے، کئی دفعہ محلے والوں نے انہیں اسپتال پہنچایا، اگلے روز وہ ایک دفعہ پھر کونڈی ڈنڈے کے گرد بیٹھے مرچوں کے ساتھ روٹی کھاتے اور ہنستے کھیلتے دکھائی دیتے۔ میں نے ایک دفعہ ان کا ڈنڈا غائب کردیا تھا جو میرے نزدیک فساد کی جڑ تھا مگر جب چھت پر سے میں نے انہیں سوکھی روٹی کھاتے اور ڈنڈا چرانے والے کی شان میں باآواز بلند کچھ نازیبا کلمات کہتے سنا تو چپکے سے ڈنڈا وہیں چھوڑ آیا جہاں سے اٹھایا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس دور میں اسکولوں میں ماسٹروں اور گھروں میں والد کے ہاتھوں پٹائی کا بہت ’’فیشن‘‘ تھا۔ ماسٹروں سے کہا جاتا تھا کہ بچہ آپ کے سپرد کررہے ہیں، اسے عالم فاضل بنادیں اگر یہ اس دوران نافرمانی کرے تو اس کی کھال پر آپ کا حق ہے، باقی بچا کچھا ہمارا ہے، چنانچہ ماسٹر صاحبان والدین کی اس خواہش کا پورا احترام کرتے تھے جو کسر رہ جاتی تھی وہ گھر میں بڑا بھائی اور والد وغیرہ پوری کردیتے تھے، چونکہ اس زمانے میں بچوں کی نفسیات کے ماہر نہیں تھے، لہٰذا ان مار کھانے والے بچوں کے دلوں میں اپنے والدین اور اپنے استادوں کے خلاف کوئی نفرت پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے دلوں میں ان کیلئے بے پناہ محبت اور احترام کا رشتہ ہمیشہ باقی رہتا۔ ان کی شخصیت میں کوئی........
© Daily Jang
visit website