menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عطا ء الحق قاسمی

27 0
26.10.2024

یہ ڈھائی تین سو سال پہلے کی بات ہے، یہ میری جوانی کے دن تھے اور ہر روز روزِ عید تھا، ہر شب ، شب برات۔ دوستوں کے ساتھ نائو نوش کی محفلیں جمتیں، میرے یار دوست پتہ نہیں کیوں چاہتے تھے کہ شہر میں میری شہرت ایک صاحب کرامات بزرگ کے طور پر ہو چنانچہ انہوں نے سادہ لوح لوگوںمیں میرے حوالے سے عجیب و غریب واقعات مشہور کرنا شروع کردیئے۔ مثلاً یہ کہ حضرت ایک دن اپنی ایک مریدنی پر دم کر رہے تھے اسے یہ مرض لاحق تھا کہ وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی تھی اور لیٹتے وقت وہ ایک سائڈ پر نہیں لیٹ سکتی تھی۔ حضرت کے حاسدوں نے اس روحانی عمل کو جانے کیا رنگ دیا کہ بے شمار لوگ دروازہ توڑ کر حضرت کے حجرے میں داخل ہوگئے اور یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اندر کوئی خاتون نہ تھی بلکہ حضرت جائے نماز پر بیٹھے یاد اللّٰہ میں مصروف تھے۔بس یہاں سے میری ولایت کی بنیاد پڑی اور شہر کا شہر میرے حلقہ ارادت میں آگیا۔

میرے شب و روز کے یہ دوست ستر اسی برس کی عمر میں انتقال کرگئے مگر اب ان کا کام خود میرے مریدوں نے سنبھال لیا۔ اس زمانے میں مجھے اپنی ولایت کے کچھ ایسے قصے سننے کو بھی ملے کہ خود مجھے شبہ گزرنے لگا کہ میں واقعی بہت پہنچا ہوا بزرگ ہوں اور یہ کہ میں قدرت کے کاموں میں بھی دخل دے سکتا ہوں۔ ایک روز مجھے پتہ چلا کہ شہر میں میری کرامات کی دھوم مچی ہوئی ہے، ان میں سے ایک کرامت یہ تھی کہ میرے مرید کا ایک اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا اور وہ روتا ہوا میرے پاس آیا، بس وہ ایک ہی بات کئے جا رہا تھا کہ مجھے میرا بیٹا واپس چاہئے۔ روایات کے مطابق اس کی آہ و بکاہ سن کر میں خود بھی آبدیدہ ہوگیا۔ میں نے فضا کی طرف ایک ڈائی ماری اور دیکھتے ہی دیکھتے ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ عزرائیل ایک تھیلے میں وہ روحیںلئے محو پرواز تھے جو اس روز انہوں نے اللہ کےحکم سے قبض کی تھیں۔ میرے مریدوں کے مطابق میں نے عزرائیل سے کہا کہ اس تھیلے میں میرے فلاں مرید کے بیٹے کی روح بھی موجود ہے وہ مجھے واپس........

© Daily Jang


Get it on Google Play